فیض احمد فیض
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے ؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے؟
روشنی دن کی وہی ، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسماں بدلا ہے افسوس ، نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری فروری اور مارچ میں ہوگی سردی
اور اپریل مئی اور جون میں ہوگی گرمی
تیرامن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کرکے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئے
بے سبب دیتے کیوں لوگ مبارک بادیں
کیا سبھی بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی