دھوپ کی تمازت میں جلتے ہوئے اندرونِ سندھ کے ایک چھوٹے سے زرعی گاؤں میں زندگی ہمیشہ کی طرح سِسکتے ہوئے گذررہی تھی۔ دوپہر کا وقت، مئی کا مہینہ، کچے راستوں پر جانور تک نظر نہیں آتے تھے، ایسے میں فضل دین [عرف فضلو] ایک گھرسے دوسرے گھر بھاگا جا رہا تھا۔
آج فضلو کے گھر میں بچے کی پیدائش متوقع تھی، اس سے پہلے چار بار یہ دن آیا مگر فضلو کا کوئی بھی بچہ ایک سال کی عمر تک نہ پہنچ سکا۔ کمزوری اور بیماری اپنی جگہ مگر سب سے بڑی وجہ ماں اور بچے کو خوراک کا نہ ملنا تھا۔ فضلو گاؤں کے زمیندار جسے سب وڈیرہ سائیں کے نام سے جانتے تھے کے پاس ایک معمولی ہاری کی ملازمت کرتا تھا، تنخواہ وغیرہ تو کچھ نہیں بس ڈیرے سے کچھ اناج اور سال میں دو مرتبہ پرانے کپڑے مل جاتے تھے جو فضلو کی کل کمائی تھی۔ وڈیرہ سائیں کبھی خوش ہوکر کچھ پیسے دے دیں توان کی مرضی لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔
دن بھر وڈیرہ سائیں کے کھیتوں اورمویشیوں کی دیکھ بھال اور ان کی ایک آدھ جھوٹی تعریف فضلو کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔
آج فضلوکی پریشانی کا سبب متوقع ولادت تھی کیونکہ نہ تو گھرمیں کھانے کو کچھ تھا، نہ ہی نومولود کو ڈھانپنے کے لیے کوئی کپڑا، نہ ہی دوا کا انتظام نہ ہی دائی یا ڈاکٹرکی دستیابی کہ مفت میں اس دوپہرمیں کون آئے؟
چچا فضلو ایک گھر سے دوسرے گھر اِس آس پر جارہا تھا کہ شاید کوئی مالی مدد میسر ہوجائے مگر گاؤں میں توسب کا حال ہی ایک جیسا تھا۔ وڈیرہ سائیں شہر گیا ہوا تھا اور ڈیرے میں بیٹھے اس کے چیلوں سے کچھ مانگنے یا الجھنے کا سوچ کر ہی چچا فضلو کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔
خیر اِس کشمکش اور سوچوں کی اُدّھم پیل میں فضلو کو پڑوس کی عورتوں سے (جو گھر میں آئی ہوئی تھیں) ایک بیٹے کی نوید ملی۔ فضلو بے چارہ اس سوچ میں کہ اب آگے کیا ہوگا صرف ایک مصنوعی ہنسی ہی چہرے پر لاسکا۔
پھر جب کچھ سمجھ نہ آیا تو چچا فضلو گاؤں کی اکلوتی مسجد کے مولوی صاحب کے پاس چلا گیا اور عرض کی ’’مولوی صاحب! آج گھر میں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے کوئی بھلا سا نام بتادیں رکھنے کو، مگر نام ایسا ہو کہ بچہ بچ جائے کہ چار اس سے پہلے کے جلدی ہی مرگئے۔‘‘ یہ کہہ کر فضلو فرطِ عقیدت سے مولوی صاحب کے ہاتھ آنکھوں پر لگا کر چومنے لگا۔
مولوی صاحب گویا ہوئے؛
’’فضلو دیکھ ایسی خبر بغیر مٹھائی کے نہ لایا کر اور اب تو تیرے بچے کی جِندگی کے لیے دعا بھی مانگنی پڑے گی، کوئی تعویذ اور چلّہ بھی لگانا ہوگا، تو تیری غربت اوراخلاص کو دیکھتے ہوئے پچاس روپے میں یہ کام ہوجاوے گا، جا شاباش بھاگ کے مٹھائی اور پیسے لے آ، تب تک میں کوئی موزوں نام سوچ لوں حساب کتاب لگا کے۔‘‘
فضلو نے روہانسی لہجے میں جواب دیا، مولوی صاحب! میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں، سائیں شہر گیا ہوا ہے بس نام بتادو، اللہ بھلا کرے گا۔ مگرمولوی صاحب پر اِس کا کوئی اثر نہ ہونا تھا نہ ہوا، کہنے لگے تو جب تک بیٹے کو’’بے نام‘‘ ہی رکھ ، شاید دنیا میں اور دین میں بھی بے نام ہی رہ جائے۔ اتنا کہہ کر مولوی صاحب منہ پھیر کر تسبیح کرنے لگے! اور فضلو بیچارہ کچھ دیر تک تو انکی ہزار دانوں کی تسبیح ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھا رہا پھر مایوس ہوکر واپس چلا آیا۔
’’بے نام‘‘ اور مولوی صاحب کے جملے فضلو کے دل کے آرپار ہوگئے۔ اس رات فضلو سو نہیں پایا، بس روتا رہا اور اپنے صحن کی چارپائی پہ پڑا پتہ نہیں آسمان کو تکتے ہوئے کیا کیا بڑبڑاتا رہا۔
’’اللہ سائیں! یہ مولوی صاحب کہتے ہیں میرا بیٹا بے نام رہ جائے گا او میرے نام والے اللہ، میری لاج رکھ، اسے جندگی دے، نام دے، اس کا خیال رکھ، ہم پر رحم کر، ہم پر فضل کر، میرے مالک آج یہ بے نام تیرے نام کرتا ہوں۔‘‘
جیسے تیسے دن گزرتے گئے، دن ہفتے، ہفتے مہینے اور مہینے سال بنتے چلے گئے فضلو دن رات سائیں کی سیوا کرتا اور کچھ وقت مل جاتا تواس میں اپنے بیٹے سے کھیلتا۔ آج اس کا بیٹا لگ بھگ آٹھ سال کا ہوگیا تھا۔ نام کچھ نہیں رکھا تھا، کوئی چھوٹا بولتا، کوئی فضلو کا فضلو تو کوئی مُنّا۔
مُنّے نے دوسال کی عمر میں ہی بولنا سیکھ لیا تھا اور دماغ کا بہت تیز تھا۔ اس میں عام بچوں والی کوئی بات نہیں تھی نہ زیادہ بولتا تھا نہ کھیلنے سے کوئی دلچسپی، نہ کھلونوں کا کوئی شوق نہ کھانوں سے رغبت، دے دیا تو کھالیا ورنہ مانگا کبھی نہیں۔
فضلو اپنے مُنّے کو وڈیرہ سائیں کے پاس اکثر لے جایا کرتا تاکہ ان کی سرپرستی رہے۔ مُنّا جب بھی سائیں سے ملتا بہت سوال پوچھا کرتا تھا اور سوالوں کی یہ تکرار نہ تو فضلو کو بھلی لگتی اور نہ ہی سائیں کو، کبھی کبھار سرزنِش تو کبھی ڈانٹ تو کبھی مار، یہ مُنّے اور سائیں کے درمیان روز کی بات ہوگئی۔
ایک دن فضلو بجلی نہ ہونے کے سبب آدھی رات کو بیٹھا اپنی بیوی کے ساتھ اپنے نصیب کا ماتم کررہا تھا کہ مُنّا اُٹھ گیا اور کہنے لگا:
باب ا!آپ جلی کٹی کیوں بولتے رہتے ہو؟
منّے میں دکھی جو رہتا ہوں۔
یہ دکھ کیا ہوتے ہیں؟
بیٹا! دکھ ایسی چیز ہے جوصرف غریبوں کے پاس ہوتے ہیں۔
تو یہ دیتا کون ہے؟
امیر۔
کیوں؟
انہیں خوشی ملتی ہے شاید دُکھ دے کرغریبوں کو۔
تو امیروں کو دُکھ کون دیتا ہے؟
پتہ نہیں، تو بکواس بند کر اور سوجا۔
بابا! تو خوشی کیا ہوتی ہے؟ کیسی دِکھتی ہے؟
جوامیروں کے چہروں پرہوتی ہے جب وہ مسکرارہے ہوتے ہیں۔
تو پودوں کی خوشی کیسے ہوتی ہے اور جانوروں کی؟
بیٹا جانوروں کی خوشی ان کے اچھلنے کودنے میں ہے اور پودوں کی خوشی ان کے پھولوں میں۔
پھربابا! ہم پھولوں کو توڑ کیوں لیتے ہیں؟
فضلو نے ہمیشہ کی طرح منہ بگاڑا اور کروٹ بدل کے سوگیا۔ صرف فضلو ہی نہیں پورا گاؤں مُنّے کے روز روز کے سوالوں سے تنگ تھا۔
پنچائیت کے بڑے بوڑھوں نے تو صاف منع کردیا تھا کہ دیکھ فضلو! توجب ملنے آوے تو اِس شیطان کو ساتھ نہ لایا کر یہ اول فول بکتا ہے اور ہمارا وقت برباد کرتا ہے۔
مسجد کے مولوی صاحب کو تو مُنّے سے جیسے اللہ واسطے کا بیر تھا، شاید وہ اپنی مٹھائی کا غم بھول نہیں پائے تھے یا مُنّے کے ہروقت کے سوالات نے ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔
اگر مُنّے کی گاؤں بھرمیں کسی سے دوستی تھی تو وہ تھے دینو چاچا۔ نام تو ان کا دین محمد تھا مگر سب لوگ انہیں دینو چاچا کہہ کر بلاتے تھے۔ کوئی ساٹھ کے پھیرے میں ہوں گے یا شاید پچپن کے، آگے پیچھے کوئی تھا نہیں، کچھ سال پہلے پتہ نہیں کہاں سے اس گاؤں میں آئے اور یہیں کے ہورہے، کبھی موچی کا ٹھیّہ لگا لیتے تو کبھی آم بیچتے نظر آتے، کبھی حجام بن جاتے تو کبھی سبزی فروش، ایک بے ضرر سے بزرگ آدمی تھے، کم گوتھے لہٰذا لوگ زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔
مُنّے کو جب بھی وقت ملتا گھر اور ڈیرے کے بے شمارچھوٹے چھوٹے کاموں سے، تو وہ چاچا دینو کے پاس جا بیٹھتا۔
آج دینو چاچا گاؤں سے ذراہٹ کے کنویں کے پاس بیٹھا اپنے روایتی طرز پرخلاؤں میں کھویا ہوا تھا کہ مُنّا آگیا۔
دینو چاچا، دینو چاچا، میری بات سن، سن بھی لے نا۔
ہاں کیا ہے مُنّے کیوں تنگ کرتا ہے؟
چاچا تو یہ روز نویں [نئے] کام کیوں کرتا ہے، کوئی ایک کام کرلیا کر ٹِک کے؟
چاچا نے مُنّے کو گھورا کیونکہ سوال اُس کی عمر سے بڑا تھا، اور بولا دیکھ مُنّے! یہ جو روٹی روزی ہوتی ہے نا وہ اللہ دیتا ہے، یہ کام کاج تو وسیلہ بہانہ ہوتے ہیں۔ جب کسی کام میں میرا ہاتھ بیٹھ جاتا ہے اور دل میں خیال آنے لگتا ہے کہ میں اب خود کماکے کھاسکتا ہوں اور میرا جو رشتہ ہے اپنے اللہ سے وہ ٹوٹنے لگتا ہے تو میں کام چھوڑ دیتا ہوں۔
او چاچا! کیا بول رہا ہے کچھ سمجھ نہ آوے ہے چل چھوڑ یہ بتا میرا نام کیا ہے؟
سب مجھے مُنّا کہتے ہیں اب میں کوئی مُنّا تھوڑا ہی ہوں؟
آٹھ سال کا جوان ہوگیا ہوں، کام کاج میں ہاتھ بٹاتا ہوں بابا کا، تو میرا بھی نام ہونا چاہئے اور چاچا میں کون ہوں؟
مُنّے ہم سب اللہ کے بندے ہیں میں بھی اور تو بھی، تواپنا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھ لے یہ سن کر مُنّے کی آنکھوں میں چمک آگئی اورفوراً چیختا ہوا بھاگا میں عبداللہ ہوں میں عبداللہ ہوں، میرانام ہے عبداللہ۔
گھرپہنچ کے جب یہ نام ماں اورباپ کو بتایا تو انہیں غلطی کا احساس ہوا کہ نام تو وہ رکھنا ہی بھول گئے، بہت چاہا کہ مُنّے کا نام وڈیرہ سائیں سے رکھوائیں شاید اس بہانے کوئی طاقتور سہارا مل جاوے اور گاؤں کی رِیت بھی یہی ہے۔ مگر مُنّے کو تو عبداللہ کا بھوت ایسا چڑھا کہ ماں باپ کو ہار مانتے ہی بنی اور یوں فضلو کا منا عبداللہ قرارپایا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج صبح ہی سے عبداللہ بے حال تھا، رات کھانے کوکچھ ملا نہیں، فضلو اور ماں دونوں ڈیرے پر کام کرنے جاتے تو وہاں سے کھانا کھاکر آتے اور چھوٹے عبداللہ کے لیے لے آتے۔ کل نہ تو عبداللہ ڈیرے پر گیا اور نہ ہی ماں باپ کچھ لاسکے، رات کی بھوک اورغصہ عبداللہ کے چہرے سے ہی نظر آرہا تھا۔
خیر وہ آج ڈیرے پر کام کرنے کے لیے چلا گیا، صحن میں ہی وڈیرہ سائیں اپنے چیلوں اور پالتو کتوں کے ساتھ براجمان تھے، عبداللہ نے جاکر سلام کیا اور پیروں کو ہاتھ لگایا۔
وڈیرہ سائیں گویا ہوئے اوئے چھوٹے، کیا نام بتایا تھا فضلو نے تیرا، ہاں عبداللہ تو جلدی سے ایسا کرکہ رسوئی سے گوشت لاکے میرے ان شیروں [کتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے] کو کھلادے، پھر ذرا ان کو چہل قدمی کراکر انہیں اچھی طرح نہلادے، بے چارے کل شکار پر گئے تھے تھکے ہوئے ہوں گے۔
عبداللہ ایک معمول کی طرح اُٹھا اور بتائے ہوئے کاموں پر لگ گیا مگر سوالوں کی ایک بوچھاڑ تھی جو ذہن پر بوجھ بنے جارہی تھی، باپ نے سختی سے ڈیرے اورخصوصاً وڈیرہ سائیں سے کچھ پوچھنے کا منع کیا تھا مگر عبداللہ کا ذہن تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
کیوں تھکا ہوا تو میں بھی ہوں، میں نے تو کھانا بھی نہیں کھایا، گوشت تو دور کی بات، باسی روٹی بھی نہیں ملی، کیا امیر کے کتے، غریب کے بچوں سے زیادہ اہم اور خیال رکھے جانے کے قابل ہوتے ہیں؟ کیا سائیں کو ہماری حالت نظر نہیں آتی؟
کیا سائیں کا اور میرا اللہ اور ہے؟ اور نجانے کیا کیا۔
خیرعبداللہ جیسے ہی کتوں کے کام کاج سے فارغ ہوا سیدھا وڈیرہ سائیں کی خدمت میں گیا اور کہا؛
سائیں ایک بات پوچھوں اگر ناراض نہ ہوں تو؟
ہاں عبداللہ ویسے تو تیرا بولنا ہمیں سخت ناپسند ہے مگر آج موڈ بہت اچھا ہے تو پوچھ لے کیا پوچھتا ہے؟
سائیں میں کون ہوں؟
ابے تو میرا نوکر ہے اور کون۔
اچھا تو میرا باپ کون ہے؟
وہ بھی میرا نوکر ہے [سائیں مسکراتے ہوئے]
اور میرا دادا وہ کون تھا؟
وہ بھی میرا نوکر تھا [سائیں کے لہجے میں رعونت اورغرورجیسے بھر آیا ہو]
اچھا مگر سائیں ایک بات سمجھ نہ آئی، ہم نسلوں سے نوکر چلے آرہے ہیں اور آپ نسلوں سے مالک۔
ہاں یہ تو ہے [سائیں مسکراتے ہوئے بولا]
تو [عبداللہ نے اپنی بات جاری رکھی ] پھرآپ کے کسی بھی کام، کاروبار، ڈھورڈنگر، یا کھیتی کا اثر آپ کے پاس کے لوگوں پرکیوں نہیں ہوتا؟
ہم ڈاکٹر، انجینئر بھلے نہ بنیں، مگر اس قابل تو ہو جاویں کہ دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے ۔عبداللہ کی بات کی چبھن اور نظروں کا زہر وڈیرہ سائیں کو اپنی نسوں میں سرایت کرتا محسوس ہوا وہ سیخ پا ہوگیا اور طیش میں آکے اپنے نوکروں کو آواز دی۔
اوئے کرمو! ارے صابو اوئے گڈّے، اِدھرآ۔ مار اِس پلے کو، حرامی باتیں بناتا ہے۔
اورسب کے سب عبداللہ پر ٹوٹ پڑے، اندر زنان خانے میں سے کسی نے چھ آدمیوں کو ایک آٹھ سالہ لڑکے کو پیٹتے دیکھا تو عبداللہ کے باپ کو خبرکردی۔
فضلو بے چارہ کپکپاتا ہوا آیا اور سائیں کے پاؤں پڑگیا۔ ’’معا ف کردے سائیں پگلا گیا ہے گرمی میں، بے وقوف ہے، جاہل ہے، معاف کردے سائیں بچہ ہے۔‘‘
لاتوں، مکوں اورتھپڑوں کی زد میں جب عبداللہ کے کپڑے پھٹ گئے اورچہرہ لہولہان ہوگیا تب کہیں جاکے سائیں کی انا کو تسکین پہنچی اور کہنے لگا ’’اوئے فضلو! لے جا اسے، لیکن آئندہ ڈیرے پر اگر یہ نظرآیا تو کٹوا کے کُتّوں کو کھلادوں گا‘‘۔
فضلو اپنے لختِ جگر کو نیم بے ہوشی کی حالت میں لے کر گھر پہنچا تو بیوی نے رو رو کرجان ہلکان کردی۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ عبداللہ کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی شوخی مزید بڑھ گئی تھی۔
درد، تکلیف، ہونٹوں پر بہتے خون کا ذائقہ، پھٹے کپڑوں سے جھانکتا لاغر جسم اورسُوجی ہوئی آنکھیں، آج عبداللہ کا ظاہر اس کے باطن کا نظارہ پیش کررہا تھا، وہ پوری رات درد میں کمی پرسوتا اورشدت پراٹھتارہا۔
فضلو کو تو جیسے آج کسی نے اندر سے ہی توڑ ڈالا ہو، اپنے سامنے اپنے لختِ جگر کو پٹتا دیکھتا رہا اور اتنی جرأت بھی نہیں کہ اُٹھ کے بچاہی سکے، کوئی ہاتھ ہی روک لے۔ آج پھر فضلو رات بھر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا اپنے اللہ سے نہ جانے کیا کیا کہتا رہا۔
(جاری ہے)