ہاتھ اٹھتے ہیں نہ ہوتی ہے لبوں کو جنبش
ہم تجھے اتنے سلیقے سے دعا دیتے ہیں
عبداللہ بھی رات بھر مُصلّے پہ بیٹھا روتا رہا۔
’’اللہ سائیں! ساڈی وِی سن لے ساڈی لاج رکھ لے۔
مینو پوزیشن دے دے، فِرتے نوکری لگ جاوے گی، تیرا وڈا شکر ہووے گا، دیکھ میرا باپ اور ماں خوش ہوجائیں گے اور پھوپھی تو شاید خوشی کے مارے جھومنے لگیں۔ تجھے تیری شانِ کریمی کا واسطہ، شانِ حبیبی کاواسطہ، تو تو قریب ہے نا، مجھ سے شہ رگ سے بھی قریب، تو سن لے نا، نہ سننی ہو تو بھی سن، تجھے ہی تو سجدہ کرتا ہوں، تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے تو جاؤں کہاں؟ بس سن لے میرے اللہ۔ اللہ سائیں میں تجھ ہی سے مانگتا ہوں، میرا باپ بھی تجھ سے مانگتا ہے، دادا بھی تجھ سے ہی مانگتا تھا، ہم تو نسلوں سے بھکاری چلے آرہے ہیں تیرے در کے، تو خالی ہاتھ واپس نہ بھیجنا میرے اللہ میاں! مجھے یقین ہے تو نے سن لی، دیکھ مجھے جھوٹا نہ کروایو، اس رات کے اندھیرے میں تو جانتا ہے کہ میں نے جندگی میں صرف تجھ سے ہی تومانگا ہے سن لے میرے مولا! تجھے اس بات کاواسطہ کہ تو اللہ ہے، میرا اللہ ہے، او میرے اللہ سن‘‘
پتہ نہیں کب عبداللہ کی آنکھ لگی، پھوپھی نے بھی نہ اُٹھایا کہ رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ جب آنکھ کھلی تو گھر کے باہر شور اُٹھا۔ پورا اسکول اخبار میں ہاتھ لیے گھر میں آیا ہوا تھا۔
عبداللہ نے پورے ڈویژن میں سب سے زیادہ نمبر لئے تھے، ہر آنکھ خوشی میں اشکبار تھی۔ عبداللہ کو آج اپنی ماں باپ اور چاچا دینو بہت زیادہ یاد آرہے تھے، اور وہ یک دم ہی اُداس ہوگیا۔
عبداللہ اسی شام اخبار کی کاپی ہاتھ میں لئے گاؤں روانہ ہوگیا اور پورے راستے سوچتا رہا کہ ابا کو کیسے بتائے گا۔ مولوی صاحب کو چڑائے گا جو اُسے کوڑھ مغز کہتے تھے، گاؤں والوں کو دکھائے گا جو سمجھتے تھے کہ اس کے دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے۔
عبداللہ نے صبح سویرے گھرمیں قدم رکھا، توابا چار پائی پر پڑا کچھ سوچ رہا تھا اور ماں دیگچی میں چائے بنارہی تھی۔ دیکھ ابا دیکھ، تیرے بیٹے نے کیا کیا ہے، پورے نمبر، سب سے زیادہ مارکس پورے ڈویژن میں، دیکھ اخبارمیں بھی آیا ہے، اب میں بھی صاحب بن جاؤں گا بلے بلے، شاوا شاوا۔
باپ اورماں اپنے بیٹے کے بوسے لیتے رہے اور روتے رہے۔ جذبات کا سمندر جب ٹھنڈا ہوا تو فضلو نے کہا۔ چل عبداللہ، سائیں کودکھاتے ہیں اسے بھی تو پتہ چلے کہ میرے بیٹے نے کیا کیا ہے۔ اُس نے تجھے گالی دے کے نکالا تھا نہ؟ چل آج اسے بتاتے ہیں۔
عبداللہ گویا ہوا،
چھوڑ دے ابا، مجھے پسند نہیں تیرا وڈیرہ، پھر کوئی ہنگامہ کرے گا، مجھے ڈر لگتا ہے۔ ابے کچھ نہیں ہوگا، نوکروں کی خوشی میں مالک خوش ہوتے ہیں تو چل۔ آج میں سینہ تان کے کوئی بات کرسکوں گا۔ زندگی میں پہلی بار آج میں اس گاؤں کی زمین پر فخر سے چل سکوں گا۔ آج میں کپڑا کندھے پہ رکھ کے نہیں پگڑی بنا کے پہنوں گا تو چل۔
اور یوں عبداللہ چارو ناچار ڈیرے کی طرف روانہ ہوا۔
ڈیرے پر پہنچے تو سائیں موجود تھا مگرموڈ کچھ خراب ہی معلوم ہورہا تھا۔ مگر فضلو تو اپنی ہی دھن میں مست تھا کہنے لگا:
’’سائیں !یہ میرا لونڈہ آیا ہے آج پنجاب سے، اس کا آج میٹرک کا رزلٹ نکلا ہے۔‘‘
اچھا کتنے پرچوں میں فیل ہوا ہے؟ سائیں نے مضحکہ خیز لہجے میں پوچھا۔ نہ سائیں ٹاپ کیا ہے پورے ضلع میں، یہ دیکھ اخبار میں اِس کا نام آیا ہے۔ سائیں آپ کا بیٹا بھی تو تھا شہرمیں میٹرک کے امتحان میں، چھوٹے سائیں نے تو کمال ہی کردیا ہوگا۔
یہ سنتے ہی سائیں کی آنکھ انگارہ ہوگئیں، ان کا بچہ 4 پرچوں میں فیل ہوگیا تھا، کہنے لگا حرام خور مجاق اڑاتا ہے، سن لیا ہوگا کسی سے، یہ تیرے پلے نے بتایا ہوگا اخبار پڑھ کے۔ ٹھہر ذرا میں نکالتا ہوں تیرا گھمنڈ۔
فضلو کی تو جیسے روح ہی نکل گئی، اس نے تو سوچا بھی نہ تھا ایسا ہوگا کہنے لگا ’’نہ سائیں، ہم تو تیری ملکیت ہیں، مجھے نہ پتہ تھا، نتیجہ میں غلطی ہوگئی ہوگی، چھوٹا سائیں تو ملک میں سب سے ہشیار ہے۔ مگر جو تیر کمان سے نکل گیا وہ واپس کہاں آتا ہے؟
سائیں نے اخبار پھاڑ کے فضلو کے منہ پر مارا اور لاتوں گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ اب عبداللہ سے نہ رہا گیا، اس نے بھاگ کے سائیں کا ہاتھ پکڑلیا، اور کہا سائیں معاف کردے ہمیں کیا پتہ تھا، تو چھوڑ دے میرے ابا کو، سائیں غصے میں آپے سے باہرہوگیا اور ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا، نہیں چھوڑتا حرامی کی اولاد، کیا کرے گا۔
عبداللہ کیا کہتا صرف اتنا کہا کہ ’’اللہ پوچھے گا‘‘
بس پھر کیا تھا فضلو کی پٹائی ختم اورعبداللہ کی شروع۔
جب سائیں اور اُس کے نوکروں نے مار مار کے باپ بیٹا کوادھ موا کردیا تو نجانے کیوں سائیں کو ایک خیال آیا۔
کہنے لگا ہاں یہ ٹھیک ہے، یہ میری ملکیت ہی تو ہیں فضلو نے ٹھیک کہا، مگر بھینسیں بھی ملکیت ہیں اور میں نشانی کے طور پر انہیں گرم سلاخوں سے داغ دیتا ہوں، جو میرا نشان ہے ۔
مجبور عبداللہ کے کپڑے اتروائے گئے اور کمر پہ کھولتی ہوئی سلاخ سے نشان لگادیا گیا۔ چیخوں سے آسمان ہل گیا مگر زمینوں کے جو مالک ہوتے ہیں ان کا دل کب کوئی چیز خاطرمیں لاتا ہے۔ سائیں نے نخوت بھرے لہجے میں کہا، اب سالا ساری جندگی پگڑی پہن کے نہیں آئے گا۔ ہاری پیدا ہوا ہے ہاری مرے گا۔ اس کا باپ بھی ہاری تھا تو بیٹا بھی ہاری مرے گا، اگرآج کی پٹائی سے بے غیرت بچ گیا تو۔اور پھر سائیں کے بندوں نے اللہ کے بندوں کو اٹھا کے ان کے گھر کے سامنے پھینک دیا۔
گاؤں میں خبر پھیل گئی، کوئی حکیم کو بلا لایا تو کوئی گورکن کو کہ عبداللہ کے بچنے کی امید کسی کونہ تھی، ہونٹ پھٹ گئے تھے، آنکھیں سوج گئی تھیں، 6 دانت باہر نکل گئے تھے اور جو جلنے کا نشان تھا اس میں خون رس رہاتھا۔
چاچا دینو نے بڑی جان ماری، کوئی 7 دنوں بعد عبداللہ بستر سے اٹھنے کے قابل ہوا۔ ننگ دھڑنگ زخموں سے چور پورے گاؤں کے سامنے پڑا رہنے سے جو ٹھیس خود اعتمادی کوپہنچتی ہے اس کا اندازہ کوئی اورکیسے لگا سکتا ہے؟
عبداللہ کچھ ہفتوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا، تب تک فضلو نے گاؤں چھوڑنے کی ٹھان لی تھی۔ قریبی شہر میں چاچا دینو کا کوئی جاننے والا تھا اس نے مزدوری دلانے کا وعدہ کر لیا تھا کچھ پیسے بھی چاچا دینو اور کچھ اور دوستوں نے دے دیئے تھے۔ جس سے کچھ روز کھانے کا گذارہ ہو سکتا تھا۔ فضلو نے اگلے دن صبح سویرے اپنا گھر اور تھوڑا بہت جو کچھ بھی اس میں تھا، اسے چھوڑا اور شہر روانہ ہوگیا کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔
اس شہر کو ایک بڑا گاؤں کہا جائے تو بہتر ہوگا، جو سہولیات بڑے شہروں میں ہوتی ہیں وہ یہاں عنقا تھیں، مگر فضلو کو کام خوب مل جاتا تھا۔ گاؤں کا مشقتی جسم تھا 16 گھنٹے کام کرتا تو بھی نہ تھکتا تھا اور اوپر سے ایمان دار، یہ دونوں ہی باتیں شہری لوگوں میں مفقود تھیں۔
کچھ دن توعبداللہ شہری زندگی میں مٹر گشت کرتا رہا پھر ایک دن فضلو سے پوچھا،
ابا! اب کیا کروں؟
فضلو: بیٹا میری تو سات نسلوں میں کسی نے میٹرک نہیں کیا، مجھے کیا پتہ میٹرک کے بعد کیا کرتے ہیں توایسا کر ڈاکیہ لگ جا، ایڈریس/ پتہ تو پڑھ لے گا ناں؟ ہاں ہاں بابا تو فکر نہ کر، اور یوں عبداللہ ڈاکیہ بننے کی فکر میں لگ گیا۔ اسے خواب میں بھی یہی دکھتا کہ وہ ڈاکیے کی ’’سرکاری نوکری‘‘ کررہا ہے اور لوگوں کو خط، ٹیلی گرام اورمنی آرڈر پہنچارہا ہے۔
کچھ دن بعد عبداللہ جنرل پوسٹ آفس کے سامنے انٹرویو کی لائن میں کھڑا تھا، ایک آسامی اور کوئی 200 بندے کھڑے تھے، 20 سال سے60 سال تک کے، عبداللہ تو فقط 15 سال کا ہی ہوگا۔ خیر انٹرویومیں یہ کہہ کرمنع کردیا کہ عمر بہت کم ہے، ذاتی سائیکل نہیں ہے کہ ڈاک جاکر ڈال سکے اور تجربہ نہیں ہے۔ عبداللہ نے بڑی کوشش کی کہ بات بن جائے مگرعبداللہ کی زندگی میں کوئی کام اتنا آسانی سے بھلا کب ہوا ہے اور یوں عبداللہ بے نیل و مرام گھر واپس آگیا۔
ابا اب کیا کروں؟ اسی سوال کے ساتھ صبح عبداللہ پھر فضلو کے سامنے کھڑا تھا۔
فضلو نے آس پاس کچھ لوگوں سے مشورہ کیا، کسی نے کہا کلرک لگوا دے تو کسی نے پائلٹ بننے کامشورہ دیا، کسی نے فوج کی نوکری کو زندگی کا حاصل قرار دیا توکسی نے مزید پڑھائی کومقصدِ حیات۔ الغرض فضلو نے تمام معلومات عبداللہ کے گوش گذار کردیں۔ جب کچھ نہ سمجھ آیا تو گورنمنٹ کالج میں پری انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا کہ ریاضی میں عبداللہ کے ہمیشہ پورے نمبر آتے تھے۔ فضلو نے سختی سے منع کردیا تھا کہ کتابوں کے پیسے نہیں ہیں مگرعبداللہ نے سوچا کہ کسی سے مانگ کے کام چلا لے گا۔
پھوپھی کے گاؤں میں کوئی کالج تھا ہی نہیں ورنہ عبداللہ کب کا وہاں جاچکا ہوتا۔ عبداللہ کی شہرت کچھ کلاسوں بعد ہی ہوگئی۔ ایک ہی تو تھا جو صبح سے لے کر رات تک یا تو لیکچر ہال میں ہوتا یا لائبریری میں، عبداللہ آنکھ بچا کر کالج کے ردی کے ڈبے سے آدھی استعمال کی ہوئی کاپیاں اورپین پینسل بھی اٹھا لیا کرتا تھا۔ عبداللہ اپنے نوٹس شاپنگ بیگ میں لایا کرتا تھا اور یوں کالج بھر کو طنز کرنے کے لیے ایک کھلونا مل گیا تھا، مگر عبداللہ نے تو جیسے نہ سننے اور نہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی تھی جو دل چاہے جو مرضی بولتا رہے، عبداللہ نے صرف پڑھنا تھا اور بس۔
کچھ ہفتوں بعد کالج میں ریاضی کے نئے استاد آئے، عبداللہ کو یہ مضمون بہت پسند تھا مگر استاد کو اس کے سوالات چبھتے تھے۔ فیثاغورث ہو یا ٹرگنو میٹری، کوآرڈک ایکویشن ہو یا الجبرا، عبداللہ کو اگر روز مرہ زندگی میں ان کا اطلاق سمجھ نہ آئے تو نہ وہ خود چین سے بیٹھتا اورنہ ہی ٹیچر کو بیٹھنے دیتا۔ روز روز کی اس تکرار کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیچر کلاس میں آتے ہی سب سے پہلےعبداللہ کو باہر نکال دیتا۔
کچھ دن عبداللہ نے برداشت کیا مگر پھر کالج آنے کا فائدہ ہی کیا جب کلاس ہی اٹنیڈ نہ کرسکتا ہو۔ آج عبداللہ ٹیچرکے کہنے کے باوجود کمرے سے باہر نہیں گیا،
میں کیوں جاؤں میں غلط سوال نہیں پوچھتا، نہ ہی نیت آپ کو تنگ کرنے کی ہے، مگرآپ بلاوجہ جب چاہے مجھے سب کے سامنے ذلیل کرتے ہیں اور کوئی دکھ نہ ہو، اگر اس کے بدلے کچھ سیکھنے کو مل جائے، آپ ظلم کرتے ہیں، اللہ پوچھے گا!
یہ سننا تھا کہ ٹیچر نے کلاس ختم کرنے کا اعلان کیا اور ڈسپلنری کمیٹی میں عبداللہ کے خلاف درخواست دے دی۔ کالج
پرنسپل نے عبداللہ کو اپنے والدین کو لانے کا کہا، مگر عبداللہ جانتا تھا کہ اس کا باپ کبھی کالج نہیں آئے گا اور اگر اسے کسی ممکنہ جھگڑے کی بھنک بھی پڑی تو، وہ اپنے ہاتھ سے ہی عبداللہ کو مار ڈالے گا اور یوں کالج پرنسپل نے عبداللہ کی بات سنے بغیر یک طرفہ فیصلہ دے دیا اور عبداللہ کو کالج سے خارج کردیا گیا۔ آج تو جیسے عبداللہ کی دنیا ہی ختم ہوگئی، وہ خواب جو دیکھے تھے، انجینئر بننے کے، کچھ کر دکھانے کے، بڑا آدمی بننے کے، سب چور ہوگئے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ گھر پہ کیا بتائے، کس منہ سے جائے گا، خیر اسی سوچ بچار میں جب گھر پہنچا تو فضلو بہت خوش نظرآیا، دیکھتے ہی کہنے لگا عبداللہ میں نے مزدوری چھوڑ دی ہے اور کرایہ پہ ایک ٹھیہ لے لیا ہے برتنوں کا، اب میں برتنوں کا کام کروں گا آرام سے بیٹھ کر اس دن تک، جب تک تو انجینئر نہیں بن جاتا، اب شاید ہم بھی خوش ہوسکیں گے۔
ابا! آج مجھے کالج سے نکال دیا گیا ہے، برے کردار (Bad Character) کی وجہ سے، اب کہیں اور داخلہ بھی نہیں ملے گا، فضلو کو اپنے بیٹے پر پورا یقین تھا کہ کچھ بھی ہو، اس کا کردار بے داغ ہے، عبداللہ 10 انگلیوں میں 10 چراغ تھا۔ ویسے بھی جب بھوک کی بیماری بدن سے چمٹی ہو ناں تو، خواہشوں کی ملکہ کوسوں دور رہتی ہے۔
فضلو نے اداس لہجے میں کہا، عبداللہ مجھے لگتا ہے کہ تجھے مولوی کی بد دعا لگ گئی ہے تو شاید ’’بے نام‘‘ ہی رہ جائے، تو فکر چھوڑ اور میرے ساتھ ٹھیے پر بیٹھا کر، اور یوں عبداللہ نے ٹھیے پر بیٹھنا شروع کردیا۔ ساتھ میں وہ کوئی نہ کوئی کتاب ساتھ لے جاتا پڑھنے کو، آج کل زیادہ تر زور اسلامی کتابوں اورانگریزی سیکھنے پر تھا۔ عبداللہ شہر کی لائبریری سے روز نئی کتابیں لے آتا۔ اثر نعمانی، عزیز اثری، وحیدہ نسیم، قدرت اللہ شہاب، جبار توقیر، سعید لخت، کمال احمد رضوی، نسیم حجازی، سعادت حسین منٹو، علیم الحق حقی، ناصر کاظمی، یاس یگانہ، لطیف فاروقی، علامہ راشد الخیری، عشرت رحمانی، حسینہ معین، انتظار حسین، شوکت تھانوی اور کرشن چندر۔ وہ کون سا ایسا مصنف تھا جو عبداللہ نے چھوڑ دیا ہو۔
ایک دن ایک گاہگ دکان پر آیا اسے لالٹین چاہئے تھی۔ فضلو نے ایک لالٹین اس کے سامنے رکھ دی اور کہا یہ 100 روپے کی ہے۔ بڑی اچھی ہے پائیدار، لیک بھی نہیں ہوتی، اس کا شیشہ بھی دستیاب ہے وغیرہ وغیرہ، کچھ ہی دنوں میں فضلو ایک گھاگ سیلزمین بن چکاتھا۔ مگر مجھے تو ولایتی چاہئے، گاہک نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
فضلو نے ایک اور لالٹین نکال کے رکھ دی اور قیمت 300 روپے بتا کر زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگا، اس کی خصوصیات کے بارے میں۔ تھوڑی سی تکرار کے بعد گاہک نے ولایتی لالٹین 250 میں خرید لی جب کہ لوکل وہ 50 میں بھی خریدنے پر آمادہ نہیں ہوا۔
جب وہ چلا گیا تو فضلو نے قہقہہ لگایا اور کہا، یہ شہری لوگ اپنے آ پ کوبہت عقلمند سمجھتے ہیں، دونوں لالٹین ایک ہی جگہ کی بنی ہوئی ہیں صرف پیکنگ کا فرق ہے۔ عبداللہ کو یہ بات سخت ناگوار گذری اس نے باپ سے کہا، ابا تو، تو بدل گیا ہے، شہری ہوا تجھے راس نہیں آئی، اب کیا توجھوٹ بھی بولے گا؟ نہیں عبداللہ! یہ یہاں کا عرف ہے، ایسا ہر کام میں ہوتا ہے، شروع میں کئی ہفتوں میں سیدھی سچی بات کرتا رہا مگر کچھ نہ حاصل ہوا، اب دیکھ کام دھندہ کیسا چمک رہا ہے۔
مگرابا، جان دینی ہے اللہ پوچھے گا۔ ہاں بیٹا، کہتا تو، تو ٹھیک ہی ہے چل وعدہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔
اگر تیرا اور تیری ماں کا بھوکوں مرنے کا خیال نہ ہوتا تو کبھی یوں نہ کرتا۔
چھوڑ ابا، مجھے تو نہ ڈرا، اب مرنے سے، مرنا ہوتا تو کب کا مرگیا ہوتا۔ بھوکا مرنا لکھا ہے تو ایسے ہی سہی، پر جھوٹ نہ بولیں گے۔ کچھ روز بعد اخبارمیں ایک نئے کالج کا اشتہار آیا جو کسی این جی او نے غریب اور یتیم بچوں کے لئے کھولا تھا مگر وہاں انجینئرنگ کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ انہوں نے پری میڈیکل سے شروع کیا تھا اور کلاسیں بھی شام کو ہوتی تھی۔ عبداللہ اسی شام کالج پہنچ گیا اور ایڈمیشن فارم جمع کروا دیا۔
انٹرویو کے وقت تمام ماجرا سچ سچ کہہ سنایا کہ پچھلے کالج سے Bad Character کا سرٹیفکیٹ کیونکر حاصل ہوا۔ ایڈمشن کمیٹی کواس بات کا پورا احساس تھا کہ یہ پوزیشن ہولڈر بچہ ہے اور اگر آگیا تو اس کا نام مارکیٹنگ اور فنڈز کے حصول میں پوری طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ مگرعبداللہ کی اس قدر صاف گوئی انہیں بالکل نہ بھائی، پرنسپل صاحب کہنے لگے برخوردار، تمہارے میٹرک میں نمبر ضرور اچھے ہیں مگرساتھ ساتھ تم تھوڑے سے بے وقوفِ اور بدعقل بھی ہو۔
نہیں پرنسپل صاحب، عبداللہ نے ان کی بات کو بیچ میں سے اچکتے ہوئے کہا، میں بے عقل ہوسکتا ہوں مگر بدعقل اور بے وقوف نہیں۔ سب ہنسنے لگے اور کہا کہ بے وقوف یہ تو ایک ہی بات ہے، بھلا بتاؤ اس میں فرق کیا ہے؟
جناب! بے عقل وہ ہوتا ہے جسے اللہ نے عقل دی ہی نہ ہو، اس بارے میں کوئی دعویٰ فی الوقت نہیں کرتا، آپ پڑھائیں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بدعقل وہ ہوتا ہے جس کے پاس عقل تو ہو مگر وہ اسے غلط کاموں میں استعمال کرے، میں ایسا کچھ نہیں کرتا۔ بے وقوف، وقوف سے نکلا ہے، جیسے کہ وقوف عرفہ، ٹھہرنے کو کہتے ہیں، ایسا شخص جو ٹھہرکے، ٹک کے کچھ نہ کرسکے وہ ہوا بے وقوف اور میرے میں یہ خصوصیت بھی نہیں پائی جاتی۔
ایڈمیشن کمیٹی نے مزید کچھ کہے بغیر فُل اسکالر شپ کے ساتھ اس کے فارم پر دستخط کر دئیے، اور یوں عبداللہ ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھنے لگا اور وقت کا پہیہ اپنی رفتارسے گھومتا رہا۔ کالج میں یوں توسب معمول کے مطابق چل رہا تھا، عبداللہ کی ذہانت کا ڈنکا ہر سُو بج رہا تھا کوئی تقریری مقابلہ ہو یا بیت بازی کا، کوئی ڈرامہ ہو یا مضمون نِگاری، عبداللہ کا نام ہی اس بات کی ضمانت تھا کہ کالج کی پہلی پوزیشن آنی ہے۔ عبداللہ نے بارہا اس کالج کے بچوں کو ہرایا جہاں سے وہ نکالا گیا تھا۔ ایک استاد ایسے تھے جوعبداللہ کو بے حد پسند کرتے تھے ان کا نام تھا عبدالرحمن۔ وہ درسِ نظامی سے فارغ التحصیل تھے، پرانے زمانے کے انڈیا سے پڑھے ہوئے تھے اور کالج میں اردو، اسلامیات اور مطالعۂ پاکستان پڑھاتے تھے۔
(جاری ہے)