ائے تو سبیل خود ہی ہوجایا کرتی ہے۔
خیر وہی ہوا جس کا فضلو کو ڈر تھا، ایڈمیشن لسٹ لگی مگرعبداللہ کا نام نہیں تھا لسٹ میں، عبداللہ سیدھا رجسٹرار کے پاس گیا اور کہا کہ ’’سر رات بھر سے یونیورسٹی گیٹ پربیٹھا ہوں کہ رہنے کی جگہ نہیں ہے، ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے، میرا نام لسٹ میں نہیں ہے۔ رجسٹرار صاحب نے پوچھا کہ تمہارا ڈومیسائل کہاں کا ہے، ہمارے پاس کوٹہ سسٹم ہے، میں چیک کرتا ہوں۔ جناب ڈومیسائل تو اندرونِ سندھ کے ایک گاؤں کا ہے۔ ہاں، اس ضلع کی صرف ایک سیٹ ہے۔ جیِ بالکل، وہ ایک سیٹ میری ہے، میرے سے زیادہ نمبر ضلع میں کسی کے بھی نہیں۔ ہاں! مگر آپ کے ضلع سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبر ایجوکیشن منسٹرہیں۔ ہاں تو؟ عبداللہ نے بے قراری سے پوچھا۔ تو برخوردار، آئینی طور پر چانسلر کی ایک سیٹ ہوتی ہے اور اس پر ان کا بھانجا تمہارے ہی گاؤں کے ڈومیسائل سے منتخب ہوچکا ہے، 53 فیصد مارکس لینے کے باوجود، اورعب داللہ کو اپنا وجود دھڑام سے فرش بوس ہوتا نظر آیا۔
’’مقصدِ زندگی‘‘ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا، وہ دوائیاں، وہ خواب، وہ پراجیکٹس سب خاک میں مل گیا۔ اب کس منہ سے جائے گا واپس۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اباّ اب میں کیا کروں؟
عبداللہ آج پھر اپنے بے بس باپ کے سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا۔
کچھ دنوں بعد اخبار میں اشتہار آیا کہ پاس والے شہر میں کمپیوٹر سائنس کا بیچلرز پروگرام شروع ہورہا ہے۔ عبداللہ نے پھر صرف یہ سوچ کر فارم جمع کروایا کہ کچھ کرنا نہ کرنے سے بہتر ہے، ورنہ نہ تو اسے کمپیوٹر سائنس کی کوئی سمجھ تھی نہ شوق، پھر وہی 313 کا فارمولا۔ اس بار داخلہ تو مل گیا مگر اسکالر شپ نہ ملی کہ پہلی بار یہ پروگرام شروع ہو رہا تھا اور ایک خلقت تھی جو داخلہ چاہتی تھی، ایسے میں یونیورسٹی کو کیا سوجھی تھی کہ وہ مفت میں داخلے دیتی پھرے۔ 1 ہزار روپے ماہانہ فیس تھی مگر فضلو کے لیے ہزار روپے ماہانہ دینا نا ممکنات میں سے تھا، بہت سمجھایا مگر عبداللہ بس دعائیں ہی مانگتا رہتا۔
’’اے اللہ! تو محتاج نہیں چھوٹے بڑے لوگوں کا، تو جب چاہے جیسے چاہے دے دے، تجھے کوئی بجٹ تھوڑا ہی پاس کرانا ہوتا ہے، اسمبلی سے، تو مجھے ایسے ہی دے دے، دیتا چلا جا، بس دیتا ہی رہے۔ اے اللہ، اے میرے مالک، اے میرے رب، تو مجھے اپنی قدرت کا مظہر بنادے، لوگ مجھے دیکھ کر کہیں کہ جب اللہ کسی کو دینے پر آتا ہے ناں تو وہ ایسے ہی دیتا ہے، جب کسی کو بلاوجہ نوازتا ہے ناں تو وہ ایسا ہی ہوتا ہے، اے میرے اللہ! تو وجہ کا محتاج نہیں تو مجھے بلاوجہ ہی دے دے۔ آمین۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
اسکالر شِپ تو نہ ملنی تھی نہ ملی مگر عبداللہ کو شام میں نوکری مل گئی، یونیورسٹی کے ساتھ قائم دھوبی گھاٹ پر۔ دن بھر پڑھنا اور رات بھر کپڑے دھونا، اتنے پیسے مل جاتے کہ عبداللہ فیس جمع کروا دیتا، اور ایک آدھ وقت کچھ کھا بھی لیتا۔
کم کھانے کی عادت تو گُھٹّی سے ملی تھی لہٰذا اگر ایک وقت بھی کھانا مل جائے تو غنیمت تھا۔ پہلا سمسٹر ختم ہوا اور عبداللہ کی 4 میں سے 4 جی پی اے آئی تو سب کو پتہ چلا ’’گُڈری کا لعل‘‘ کسے کہتے ہیں۔ جہاں کچھ دوست بنے وہاں بہت سے دشمن بھی۔
دیکھ، تو پوزیشن مت لایا کر، ایک روز ایک بڑے باپ کی اولاد نے راستہ روک کے عبداللہ سے کہا۔ اس کے باپ کو سب پیر صاحب کے نام سے جانتے تھے اور ان کی یونیورسٹی اور معاشرے میں ’’خداترسی‘‘ کی وجہ سے بڑی شہرت تھی۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا کیوں؟ کیونکہ تو مزارع کی اولاد ہے اور ہم پیر زادے ہیں، گھر والے مذاق اڑاتے ہیں کہ مزارع کا بچہ ٹاپ کررہا ہے اور تم لوگ فیل ہورہے ہو، اب اگر تیری پوزیشن آئی تو ٹانگیں توڑ دیں گے۔
عبداللہ نے پورا عزم کرلیا کہ اگلے سمسٹر میں پوزیشن نہیں لے گا، کیونکہ اگر اس بار پِٹا تو یہاں سے بھی باہر ہوگا اور ابا تو مار ہی ڈالے گا۔ فضلو نے تو اب پیسے بھی مانگنا شروع کر دئیے تھےعبداللہ سے، کہ اکلوتے بیٹے سے نہ مانگے گا تو کس سے مانگے؟ مگر عبداللہ کا تو اپنا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا، مانگے کی کتابوں سے تو بھلا وہ گھر پیسے کیسے بھیجتا؟
خیر اگلے امتحانات آئے، عبداللہ نے جانتے بوجھتے ہوئے صرف آدھے سوال حل کیے، حالانکہ اسے پورا پیپر آتا تھا تا کہ پوزیشن نہ آئے صرف پاس ہوجاؤں۔
مگراللہ کا کرنا ایسا کہ باقی کسی سے وہ آدھے سوال بھی حل نہ ہوئے اور بُرے مارکس کے باوجود اس کی پوزیشن آگئی۔ پہلا سمسٹر 4 GPA پہلی پوزیشن، دوسرا سمسٹر 2.8 GPA پہلی پوزیشن، اب بے چارہ کیا کرے اور کہاں جائے؟
پیرصاحب کے بچے اور اس کے دوست جہاں دل چاہتا، عبداللہ کو روک لیتے، کبھی نوٹس پھاڑ دیتے تو کبھی چپل اتروا لیتے۔ عبداللہ صرف ایک درخواست کرتا کہ مجھے عینک سنبھالنے دو، کیونکہ یہ میں Afford نہیں کرسکتا، اب مارو اور یوں پِٹ پِٹ کے دو سال آخر پورے ہونے ہی لگے۔ شاگرد تو شاگرد، عبداللہ اپنے استادوں کے بھی کان کترنے لگا۔ تیسرے سمسٹر میں کمپیوٹر کی مشہور کمپنی نے پروگرامنگ کے مقابلے کروائے، عبداللہ کی پاکستان بھر میں دوسری پوزیشن آگئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداللہ کی زندگی کا بڑا اہم دن تھا، آج اس کے بیچلرز پروگرام کا آخری پرچہ تھا، آج کے بعد نہ اس نے کبھی پِٹنا تھا نہ کپڑے دھونے تھے۔ اس کا موڈ تھا کہ پرچہ کرتے ہی وہ سیدھا پھوپھی کے گاؤں چلے جائے گا اور نتیجہ نکلتے
ہی شہر میں کوئی نوکری کرلے گا۔ پرچے بھی اس نے آخری سمسٹر میں پورے کیے تھے کہ رزلٹ کے بعد کسی سے ملنے کا موقع کہاں آنا تھا؟
عبداللہ پورے انہماک سے پرچہ کررہا تھا، پرچہ خاصا مشکل تھا مگر عبداللہ کے لیے نہیں، اتنے میں باہر شور اُٹھا، باقی تمام طلباء نے پرچے کوآؤٹ آف کورس قرار دیتے ہوئے کاپیاں پھاڑیں اور پرچے کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔ عبداللہ نے کسی کی فکر کبھی کی تھی جو اب کرتا۔ اس نے سر جھکا کے خاموشی سے جلدی جلدی پیپر کیا اور باہر نکل گیا۔ باہر آیا تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے، لڑکے اور ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور لاٹھیاں اور سامنے معافی مانگتے ہوئے اساتذہ اور اسٹاف۔
اتنے میں کنڑولر آف ایگزامینشن آئے اور اعلان کیا کہ کیونکہ ایک بچے نے پرچہ مکمل حل کرکے جمع کروا دیا ہے، اس لیے پیپر Count ہوگا، اس کا جو رزلٹ آئے گا، سو آئے گا آپ سب فیل، اور یہ کہہ کر وہ چلے گئے لڑکوں کو یہ معلوم کرنے میں دیر نہ لگی کہ وہ بچہ کون تھا؟ عبداللہ شکرانے کے نفل ادا کرنے مسجد میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ’’پیرصاحب‘‘ کے بچوں اور اس کے دوستوں نے اسے دبوچ لیا۔ بس پھر کیا تھا، مار، گھونسوں، لاتوں، لاٹھیوں اور مکّوں کی وہ تکرار کہ پوری یونیورسٹی اس شور سے گونج اٹھی، عبداللہ کی حالت دیکھ کر اس کے دشمن بھی رو پڑے، لاٹھی مار کے سرخونم خون کردیا، 5 پسلیاں توڑیں، پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن کھینچ کے باہر نکال دیا اور جاتے جاتے ہاتھ کی انگلیاں لکڑی کی مدد سے توڑ گئے۔
جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں زخم نہ آیا ہو، جب غصہ رفو ہوا تو سب لڑکےعبداللہ کو مردہ سمجھ کے چھوڑ کے بھاگ گئے۔ جب تک ہوش رہا عبداللہ صرف ایک ہی بات دہراتا رہا۔
’’اللہ پوچھے گا۔‘‘
کچھ اساتذہ اور بچوں نے مل کے عبداللہ کو یونیورسٹی کی گاڑی میں ڈالا اور اس کے گھر پہنچایا۔ 7 دن بعد عبداللہ کو سرکاری اسپتال کے بستر پر ہوش آیا، ابا کو 20 ہزار روپے ادھار لینا پڑا، اس کی زندگی بچانے کے لیے۔ عبداللہ نے ایک آہ کے ساتھ آنکھ کھولی تو ماں کا روتا ہوا چہرہ سرہانے پایا، ماں کا غم ہلکا کرنے کو وہ مصنوعی ہنسی کے ساتھ گویا ہوا، اماں مرا تھوڑی ہی ہوں ابھی زندہ ہوں، تو رو کیوں رہی ہے؟
عبداللہ تو مر ہی جاتا تو اچھا ہوتا، اس عمر میں بوڑھے باپ کو یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ پیر صاحب نے پولیس بھیج دی تھی، محلے والوں نے بڑی مشکل سے ’’معافی نامہ‘‘ دے کرجان چھڑائی ہے۔ پیرصاحب نے 4 گھنٹوں تک گھر کی صفائی بھی کروائی۔ عبداللہ اس سے اچھا ہوتا کہ تو پیدا ہی نہ ہوا ہوتا، اور ماں روتے روتے کمرے سے باہر نکل گئی۔ عبداللہ نے آسمان کی طرف نظر کی اور مسکراتے ہوئے شعرپڑھا،
وہ کیا کرے جو تیری بدولت نہ ہنس سکا
اور جس پہ اتفاق سے آنسو حرام ہیں
عبداللہ نے شعر ابھی پورا کیا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور سرعبدالرحمن اور چاچا دینو دونوں چلتے ہوئے آئے۔ عبداللہ نے پوری کوشش کی کہ اٹُھ کر ان کا استقبال کرسکے مگرجسم نے ساتھ نہ دیا۔ اس نے پھرمسکراتے ہوئے شعر پڑھا
اے درد تو ہی اُٹھ کہ وہ آئے ہیں دیکھنے
تعظیم کی مریض میں طاقت نہیں رہی
عبدالرحمن صاحب اورچاچا دینو نے خوب پیار کیا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ عبداللہ نے چاچا دینو سے پوچھا، چاچا کوئی موٹی سی بددعا بتا کہ مانگوں اور سامنے والوں کا بیڑہ غرق ہوجائے۔
چاچا نے سنتے ہوئے کہا، بیٹا معاف کردے، ایسے نہیں کہتے۔
نہیں چاچا میں سنجیدہ ہوں، اتنی دعائیں بتاتا ہے، بغیر پوچھے ہی، ایک بد دعا بھی سِکھا دے پوچھنے پر۔
عبداللہ! چپ سے بڑی بد دعا کوئی نہیں ہوتی، جب بندہ بولتا ہے ناں تو قدرت خاموش رہتی ہے، جب بندہ چپ ہوجاتا ہے تو قدرت انتقام لیتی ہے اوراس کا انتقام بہت بُرا ہے۔ عبداللہ نے سمجھنے نہ سمجھنے کی کیفیت میں التجائیہ نظروں سے عبدالرحمن صاحب کی طرف دیکھا، انہوں نے اشکبار آنکھوں سے یہ آیت پڑھی:
سورۃ الانعام۶:۵۴
’’غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریف اللہ رب العالمین ہی کیلئے ہے۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
(جاری ہے)